میں اس امید پہ ڈوبا کے تو بچا لے گا
اب اس کے بعد میرا امتحان کیا لے گا
یہ ایک میلہ ہے وعدہ کسی سے کیا لے گا
ڈھلے گا دن تو ہر ایک اپنا راستہ لے گا
میں بجھ گیا تو ہمیشہ کو بجھ ہی جاوں گا
کوئی چراغ نہیں ہوں جو پھر جلا لے گا
کلیجہ چاہیے دشمن سے ڈشمنی کے لیے
جو بے عمل ہے وہ بدلہ کسی سے کیا لے گا
میں اس کا ہو نہیں سکتا بتا نہ دینا اسے
لکیریں ہاتھ کی وہ اپنی سب جلا لے گا
ہزار توڑ کے آ جاوں اس سے رشتہ وسیم
میں جانتا ہوں وہ جب چاہے گا بُلا لے گا