میں اپنی قوم و قبیلہ پہ مان کیسے کروں
سموم پر میں صبا کا گمان کیسے کروں
الجھ رہے ہیں کھلے پر، در قفس سے ابھی
ابھی اسیر ہوں، اونچی اڑان کیسے کروں
بس احترام کسی کا تھا، سد راہ بنا
ادا میں فصل سے پہلے لگان کیسے کروں
گواہ بھی اس کے، عدالت بھی اور منصف بھی
اے بے گناہی! تجھے ترجمان کیسے کروں
تمام قول و عمل تیرے، سامنے ہے میرے
میں اعتماد کروں، میری جان کیسے کروں