میں اپنے خواب سے بچھڑا نظر نہیں آتا
تو اس صدی میں اکیلا نظر نہیں آتا
عجب دباؤ ہے ان باہری ہواؤں کا
گھروں کا بوجھ بھی اٹھتا نظر نہیں آتا
میں تیری راہ سے ہٹنے کو ہٹ گیا لیکن
مجھے تو کوئی بھی رستہ نظر نہیں آتا
میں اک صدا پہ ہمیشہ کو گھر تو چھوڑ آیا
مگر پکارنے والا نظر نہیں آتا
دھواں بھرا ہے یہاں تو سبھی کی آنکھوں میں
کسی کو گھر مرا جلتا نظر نہیں آتا
غزل سرائی کا دعویٰ تو سب کرے ہیں وسیمؔ
مگر وہ میرؔ سا لہجہ نظر نہیں آتا