دیکھو لہوں میں تر لاشوں کو
خاک و خوں آلودہ ہیں
چہرے پہ غم چھایا ہوا ہے
دل تک یہ افسردہ ہیں
بارود کی خوشبو میرے وطن میں
پھولوں کی طرح مہکتی ہیں
آہیں اور چیخیں مائوں کی
کوئل کے سر سا چہکتی ہیں
میرے آنگن میں دو پھول سے بچے
روز ہی مجھ سے کہتے ہیں
بابا اب تو کھانا کھلادو
بھوک سے آنسوں بہتے ہیں
کچھ آس، امیدیں میرے دل میں
اب بھی ڈیرہ ڈالی ہیں
بچپن سے اس دیس میں، میں نے
خوابوں کی دنیا بسالی ہے
اس دنیا میں کچھ غلط نہیں ہے
نہ کوئی راہ بندی ہے
جس رستے پہ خوشی سے چل لوں
نہ کوئی راہ بندی ہے
اُس دنیا سے چند لمحوں میں ہی
میں واپس آجاتا ہوں
دیکھ کے اپنے دیس کی حالت
احساس تلے رو جاتا ہوں
مجبور ہوا ہوں اخلاق سے بدتر
چیزیں میں کر جانے پر
مجھ کو کوئی غم نہیں ہے
گلیوں میں پھٹ جانے پر
انصاف کرو تم میرے شکم سے
میں نہ کوئی درندہ ہوں
ظلمت کا مارا، بھوکا، ننگا
میں اک عام سا بندہ ہوں