میں بھی شہرِ مدینہ جاؤں ، ارمان بڑا ہے
آقا کے در پہ سر کو جھکاؤں ، ارمان بڑا ہے
ہر سال ہزاروں آتے ہیں اور لوٹ آتے ہیں
میں جاؤں تو واپس نہ آؤں ، ارمان بڑا ہے
کبھی مرے گھر بھی آقا تشریف لائیں
راہ میں اپنی پلکیں بچھاؤں ، ارمان بڑا ہے
لب پہ ہو ہر دم درود اور دل میں ہو یاد اُن کی
زندگی اپنی ایسی گزاروں ، ارمان بڑا ہے
کر کے مصطفی کو راضی، خدا کو راضی کر لوں
دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کو بھی سنواروں ، ارمان بڑا ہے
اُن کے در پہ گزار دوں زندگی ساری اپنی
سر اُن کے قدموں میں ہو اور مر جاؤں، ارمان بڑا ہے
قبر میں میری کاشف جب آئیں نکیرین
مصطفی کی اک نعت سناؤں ، ارمان بڑا ہے
یہ تو میرا ہے اسے جنت میں جانے دو
روزِ محشر آقا سے سُن پاؤں ، ارمان بڑا ہے