میں تخیل کی صلیبوں پہ جو مصلوب ہوا
پھر کہیں جا کے ذرا صاحب اسلوب ہوا
جرعۂ اشک پیا مست ہوا رقص کیا
ایسا کڑوا نہ مری جاں کوئی مشروب ہوا
تیرے ہرجائی پنے کا یہ ہوا رد عمل
مجھے محبوب ملا ہے نہ تجھے خوب ہوا
بر سر طور بھی تو نے یہ تحیر بانٹا
دید کی جوت جگائی وہیں محجوب ہوا
لذت وصل میں نکلا ہوں بیابانوں کی سمت
لوگ پاگل ہیں مجھے کہتے ہیں مجذوب ہوا
ایک عرضی پہ مجھے دیس نکالا کی نوید
اتنی عجلت سے تو ابلیس نہ معتوب ہوا
نکہت وصل سے لوٹ آتی ہے آنکھوں کی چمک
ویسے روشن تو نہیں دیدۂ یعقوب ہوا