میں تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں
میں گناہ گار سا بندہ تیری توجہ چاہتا ہوں
نماز خشوع وخضوع میں معراج چاہتا ہوں
نفس و شیطان کے بہکانے سے جاہل و ظالم ہوا
میں انسان ہوں اپنا کھویا ہوا مقام چاہتا ہوں
میں تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں
جو مٹتے ہیں تجھ پہ ان سے اک پروانہ ہوں
ققنس کی طرح تیری محبت میں جلنا چاہتا ہوں
تم سحر میں اپنی رحمت کی صدا لگاتے ہو
میں ان سحروں میں اس ٹوٹے دل کی دوا چاہتا ہوں
میں تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں
جنت سے نکالا ہوا ہو کئی ایک امتحان میں ہوں
ان میں کامیابی اور ہمیشہ کا انعام چاہتا ہوں
اب یہ حسین جنّت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں تیرے بے شمار حسن کا سامنا چاہتا ہوں
میں تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں
قالوا بلٰی کا وعدہ کر کے تیری صورت بھولا ہوا ہوں
وہی طور کا جلوہ وہی لن ترٰنی سننا چاہتا ہوں
تم اپنی تجلیوں سے درخت کو روشن کرتے ہو
میں بھی اپنے دل کو عرش معلی بنانا چاہتا ہوں
میں تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں
ناسوتی دنیا میں بھٹکتا ہوا اک بے کار پرندہ
تیری عطا سے عالم لاہوت کی پرواز چاہتا ہوں
طور جل کر سرما ہوا تیری محبت میں
بڑا بے ادب ہوں وہی سزا چاہتا ہوں
میں تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں
میں فنائے نفس ہو نفس کی فنا چاہتا ہوں
تیری بقا ازل سے تیرے ساتھ بقا چاہتا ہوں
خود کو چاہتا ہو نہ اپنی انا چاہتا ہوں
خودی میں مٹ کر خود تیری رضا چاہتا ہوں
میں تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں