میں خود سے بڑھ کر جو تم کو چاہوں
تو یہ بتاؤ وفا کرو گے؟
میں تم سے سارے عہد نبہاؤں
تو یہ بتاؤ جفا کرو گے؟
بغاوت کر کے ہر ایک سے میں
رسم و رواجوں کو روند ڈالوں
اور اپنا حق بھی تم کو دے دوں
تو اپنا فرض تم آدا کرو گے؟
میں خود سے بڑھ کر جو تم کو چاہوں
تو یہ بتاؤ وفا کرو گے؟
میں قوسِ قزا کو چھو کر آؤ
نہ قدم اپنے زمیں گراؤں
میں اپنا آپ ، خود لُٹاؤں
تم مِرے لیئے جب سجا کرو گے
میں خود سے بڑھ کر جو تم کو چاہوں
تو یہ بتاؤ وفا کرو گے؟
زندگی کی طویل راہ میں
خوشی اور غم کا جو سامنا ہو
تو میرے ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر
میرے سنگ سنگ چلا کرو گے؟
میں خود سے بڑھ کر جو تم کو چاہوں
تو یہ بتاؤ وفا کرو گے؟
آس کی ڈوری بھی ٹُوٹ جائے
اور نا اُمیدی بھی دل جلائے
تو میرے ماتھے کو چوم کر تم
میرے حق میں دعا کرو گے؟
میں خود سے بڑھ کر جو تم کو چاہوں
تو یہ بتاؤ وفا کرو گے؟
اگر ہو مجھ سے بھُول کوئ
اَنا کی با ضد تلخیوں میں
تو تھام لو گے صبر کا دامن
یہ مجھ سے کوئ گِلا کرو گے؟
میں خود سے بڑھ کر جو تم کو چاہوں
تو یہ بتاؤ وفا کرو گے؟
میرے ہونٹوں کی خاموشی میں
روح کی کنیت کو بھانپ لے نا
میں جب بھی دل سے تمہیں پکاروں
تم آ کر مجھ سے مِلا کرو گے؟
میں خود سے بڑھ کر جو تم کو چاہوں
تو یہ بتاؤ وفا کرو گے؟
ہجر کی چادر اوڑھ کر جب
حُسینؔ ! تم سے دور جائیں
اور کرب لمحوں کی پیاری یادیں
تمہیں ستائیں تو کیا کرو گے؟
میں خود سے بڑھ کر جو تم کو چاہوں
تو یہ بتاؤ وفا کرو گے؟
یہ عشق کی رِمزیں ہیں سوچ لینا
بڑا ہی ظلم و ستم سَہو گے
چھُپا کر اپنے سارے غم کو
کیا خوں کے آنسو پیا کرو گے؟
میں خود سے بڑھ کر جو تم کو چاہوں
تو یہ بتاؤ وفا کرو گے؟
میں جب بتاؤں کے تم کو بے حد
یاد کر کے ہے اشک بہایا
تو اس کے عیوض تم بھی دل سے
محبت مجھ پر فدا کرو گے؟
میں خود سے بڑھ کر جو تم کو چاہوں
تو یہ بتاؤ وفا کرو گے؟
دیکھا کر تم کو یہ چاند ، تارے
اگر نہ تم کو میں سونپ پاؤں
تو ساتھ نبھاؤ گے میرا پھر بھی
یہ خود کو مجھ سے جدا کرو گے؟
میں خود سے بڑھ کر جو تم کو چاہوں
تو یہ بتاؤ وفا کرو گے؟