میں سچ کہوں پس دیوار جھوٹ بولتے ہیں
مرے خلاف مرے یار جھوٹ بولتے ہیں
ملی ہے جب سے انہیں بولنے کی آزادی
تمام شہر کے اخبار جھوٹ بولتے ہیں
میں مر چکا ہوں مجھے کیوں یقیں نہیں آتا
تو کیا یہ میرے عزا دار جھوٹ بولتے ہیں
یہ شہر عشق بہت جلد اجڑنے والا ہے
دکان دار و خریدار جھوٹ بولتے ہیں
بتا رہی ہے یہ تقریب منبر و محراب
کہ متقی و ریاکار جھوٹ بولتے ہیں
قدم قدم پہ نئی داستاں سناتے لوگ
قدم قدم پہ کئی بار جھوٹ بولتے ہیں
میں سوچتا ہوں کہ دم لیں تو میں انہیں ٹوکوں
مگر یہ لوگ لگاتار جھوٹ بولتے ہیں
ہمارے شہر میں عامیؔ منافقت ہے بہت
مکین کیا در و دیوار جھوٹ بولتے ہیں