میں نے غربت کے چہرے پر بدبختی کا سوال دیکھا ہے
قسمت کی دہلیز پر ننگے جسموں کو بے حال دیکھا ہے
دیکھا ہے میں نے ہر عروج کے مقدر میں تنزّل کو
تاریخ کے صفحات پر کسرٰی کا زوال دیکھا ہے
دیکھا ہے میں نے دہشت کے مارے بچھتی لاشوں کو
فاقوں کی جنگ لڑتے جذبوں کا ارتحال دیکھا ہے
اونچے محلوں میں بیٹھ کر بدبختی کا چرچا کرنے والے
کیا غربت کی چکی میں پستے مفلس کا حال دیکھا ہے؟
مرے دیس میں ناداری ہے، بے حالی ہے
مگر امید کا میں نے نیا اک سال دیکھا ہے
دیکھا ہے میں نے مستِ مئے اطہر ہوا فارانؔ
میں نے خودی میں جھومتا اقبال دیکھا ہے