میں نے پوچھا کہ نہیں آتی تمہیں کیوں کر حیا
مجھ سے کہتے ہیں نہیں کرتے ستم پرور حیا
اے فہد دنیا بتلا کی نہ تھی کیوں کر حیا
کر رہا ہے سر جھکاۓ اب سرِ محشر حیا
بعد مدت کے میسر آئ تھی شامِ وصال
پھر بھلا کرتا تو کیوں کر عاشقِ مضطر حیا
غیر سے تو تم کبھی کرتے نہیں ہو احتراز
مجھ سے آتی ہے تمہیں اکثر شرم اکثر حیا
کیوں نہ اپنا سر جھکائیں ہم تمہارے سامنے
تم سے تو کرتے ہیں میری جاں مہ و اختر حیا
کثرتِ عصیاں سے کیا پتھر کا سینہ ہو گیا
اب گنہ کرتا ہوں تو آتی نہیں کیوں کر حیا
تیری بے باکانہ نظروں نے کِیا بسمل مجھے
کچھ نہیں تیری نگاہِ ناز کے اندر حیا
خود جنہیں شرم و حیا سے دور تک نسبت نہیں
وہ بھی مجھ سے کہہ رہے ہیں اے فہد کچھ کر حیا