میں نے کہا تھا آج نہ جائیں گھوڑے بے حد تھکے ہوئے ہیں
اس نے کہا تھا جانا طے ہے دشمن پیچھے لگے ہوئے ہیں
میں نے کہا تھا دائیں طرف کی گھاٹی میں ہم چھپ جاتے ہیں
اس نے کہا تھا نا ممکن ہے تیروں میں ہم گھرے ہوئے ہیں
میں نے کہا تھا غار میں کاٹیں ہجرت رت کی پہلی راتیں
اس نے کہا تھا اس کے بلوں میں سانپ اور بچھو چھپے ہوئے ہیں
میں نے کہا تھا پیاس کے مارے کالی ریت پہ مر جائیں گے
اس نے کہا تھا ٹھیک ہے لیکن دو مشکیزے بھرے ہوئے ہیں
میں نے کہا تھا اس سے آگے چھپنے کی کیا صورت ہوگی
اس نے کہا تھا ڈرتے کیوں ہو آگے قلعے بنے ہوئے ہیں
میں نے کہا تھا دو ہی ہیں ہم شہر ستم سے جانے والے
اس نے کہا تھا بستی میں کچھ اور بھی ساتھی رکے ہوئے ہیں
میں نے کہا تھا سنتے ہو تم پیچھے پیچھے آتی ٹاپیں
اس نے کہا تھا ہم بھی عجب ہیں دو راہے پر رکے ہوئے ہیں
میں نے کہا تھا اب کیا ہوگا دشمن سر پر آ پہنچا ہے
اس نے کہا تھا غار کے منہ پر لاکھوں جالے تنے ہوئے ہیں
میں نے کہا تھا یہ تو بتاؤ کس کی طرف مہمانی ہوگی
اس نے کہا تھا یثرب والے اک دوجے سے بڑھے ہوئے ہیں