دنیا میں آنکھ کھولی تو باپ کا سایہ سر سے گیا
ماں کی شفقت سے محروم تھا پھر بھی میں جی گیا
ایک چاہنے والے نے مجھے جب سہارا دینا چاہا
ظالم کی گولی کا نشانہ بنا وہ اور ہم سے بچھڑ گیا
کسی نے میرے سر پہ ہاتھ رکھا اور بغل میں دبا لیا
میں سسکتا رہا، کچھ کہہ نہ سکا، وہ میرا آقا بن گیا
وہ چھوٹا سائیں تو تھا ہی، مگر میرے بل بوتے پہ
کسی کو اپنی راہ سے ہٹایا اور خود چودھری بن گیا
میری وفاداری کی گواہ تو، آج بھی دنیا ساری ہے
اُسکا حکم جب بھی ملا، میں پل بھر میں حاضر ہو گیا
میں نے اپنی اور اُسکی بقا میں دوست بھی بنا ڈالے
کام نکل گیا جب، میرے ہاتھوں سب کو ذبح کراتا گیا
میرا آقا مجھ پہ ڈالروں کی بارش بھی خوب کرتا ہے
ہر ڈالر رنگیں ہے، ڈالروں سے زیادہ تو خون بہہ گیا
جاوید کہتا ہے! کہ میرے وجود کو بہت خطرہ ہے آج
میں پاکستان ہوں، میرا شکاری سمجھو اپنی جان سے گیا