نئے خیال کے لفظوں کی شاعری بنکر
میں اسکے ہاتھ سے نکلی ہوںاب نئ بنکر
مری حیات کا مقصد بدل دیا اس نے
نکل پڑی ہوں فسانے سے زندگی بنکر
یہ بے قراری نئے کھولتی ہے در مجھ
قرا ر لوٹ رہا ہے وہ آگہی بن کر
دکھارہا ہے اندھیرے میں روشنی مجھکو
ترے فراق کا ہر لمحہ چاندنی بن کر
ٹپک رہاہے مری آنکھ سے لہو کی طرح
لبوں پہ کھیل رہا پے وہ تشنگی بن کر
ستم خزاں کا ہمیں ڈر ہے سہہ نہ پائیں گے
وفا کی آس جگا پھر سے عا شقی بن کر
کبھی تو لوٹ کے آ پھر سے میرے آنگن میں
اتر جا روح میں پھر میری تازگی بن کر