ناموس پیغمبرتھی جو با فضل خدا سے
بے پردہ رسن بستہ چلی دشت بلا سے
ان کو ہی مصبیت سے نوازا گیا رن میں
وہ جس سے محبت رہی قدرت کو سدا سے
خولی نے اسے نہر کنارے ہے دبوچا
سرور کا مہکتا تھا چمن جس کی صبا سے
سر نوک سناں اسکو چڑھایا ہے عدو نے
جھلسا ہے جگر جسکا مقدر کی ہوا سے
آفت کے شکنجے میں ہے سرور کی نواسی
منہ پیٹ کے پرسا دے بشر آہ و بقا سے
میں تیری نشانی کو بچا لاؤں گی بھیا
رشتہ نہ رہے چاہے مرا سرکا ردا سے