دلوں میں خواب ہے، آنکھوں میں دھواں کیوں ہے؟
ہر ایک چہرہ یہاں آئینہ خواں کیوں ہے؟
لبوں پہ ذکرِ ہُدیٰ، دل میں نفس کا شور
یہ خود فریبیٔ آدم کا جہاں کیوں ہے؟
جو زہر بانٹتے پھرتے ہیں حکمتوں کے نام
وہی تو فخرِ زمانہ، وہی امامان کیوں ہے؟
خموش دل ہے، نگاہوں میں اک تماشہ ہے
یہ نور چھن سا گیا، دل پریشاں کیوں ہے؟
نہ فاش گفتم و لیکن دلِ خموش نگشت
چراغ بودم و آندم کہ سوختم نگشت
کبھی جو سچ کی کرن چھو گئی دلوں کے قریب
تو جھٹ پلٹ کے وہی لوگ گمراں کیوں ہے؟
یہی وہ لمحۂ آتش، یہی وہ ساعتِ درد
کہ خود سے دور ہے انسان، یہ اماں کیوں ہے؟
بہ ہر خموشیِ شب، برقِ جنوں ہے پوشیدہ
سکوتِ دل میں بھی اک شوخ فغاں کیوں ہے؟
تُو خود چراغ ہے اے دل! تُو اپنی راہ دکھا
مگر یہ تیرگی ہر سُو نمایاں کیوں ہے؟
وہ جو صدا تھی کبھی "رُک جا، یہ راہ خطا کی ہے"
وہی صدا بھی کہیں اب گماں کیوں ہے؟
خدا نہ کرد کہ اندھیروں سے عشق ہو جائے
طلسمِ شب میں اگر دن بھی نہاں کیوں ہے؟