جسم تو بس روح کا آزار ہے اس کے دم سے سست ہر رفتار ہے آدمی عشرت میں گرفتار ہے ورنہ ساز ذندگی دشوارہے روح ہے کیا جلوہ گاہ یاہ ہے دل کیا ہے اک حرا کا غار ہے یہ ندائے بندگی یار ہے یاد ہے تو سمجھو بیڑا پار ہے