نرالی سوچ ہے اپنی انوکھا پیار ہے اپنا
جسے دیکھا نہیں اب تک وہی ہے حصہ دار اپنا
محبت کی خریداری جہاں سے کر رہی ہوں میں
خیال و خواب والا اک عجب بازار ہے اپنا
بظاہر تو وفاؤں کا کوئی رشتہ نہیں اس سے
میں اس سے پیار کرتی ہوں کہاں انکار ہے اپنا
میری نیندیں اڑا کر جو مجھے بے چین رکھتا ہے
نہیں ہے دوسرا کوئی دلِ بیمار ہے اپنا
صدف جس سے تعلق ہے فقط میرا تصور تک
مجھے اقرار کرنا ہے وہی دلدار ہے اپنا
آدھورا ہے یہ افسانہ