سو گیا درد بھی خاموش، فغاں کے دَ ر پر
زخم کے شانے پہ چپُ چاپ رکھے اپنا سر
کا ش ہو اِ نکا مداو ا بھی ، مگر ہو کیو نکر
پھر ر ہے ہیں کئی سفا ک مسیحا بن کر
ہر طر ف منفی خیالات کا جنگل نا چے
ساتھ میں گردشِ حالات کا جنگل نا چے
بیچ ر ستے میں برُی بات کا جنگل نا چے
با ل بکھر ائے سیاہ رات کا جنگل نا چے
بیشتر سرَ پہ مسلط ہیں مصیبت کے خدا
کینہ و بغض و تعصب کے ، عداوت کے خدا
قتل و غارت و تشد د کی روا یت کے خدا
جبلِ نفرت کے خدا ، بحرِ ملامت کے خدا
جاؤ ا ن سارے خدا ؤ ں کو زمیں پر لاؤ
آ ہ بھرتی ہو ئی گلیو ں میں انہیں لے جاؤ
اَ شک میں ڈ وبی نگا ہوں سے انہیں ملو اؤ
زخم سے چوُر کراہو ں کا بد ن دکھلاؤ
دیکھتے کیا ہو کھڑے چپُ مرِے یارو بولو
ایسے خاموش ہو کیوں درد کے مارو بولو
تم پہ کیا گزری ہے اے ٹوٹی دیو ارو بولو
یہ نہیں بو لتے ، اے چاند ستارو بولو
کس نے سی رکھی ہے تم سب کی ز با نیں یارو
کب تلک دیکھو گے جاتی ہوئی جانیں یارو
ظلم مٹ جائے گا دو اُٹھ کے آذ ا نیں یارو
بند ہو جا ئیں گی ان سب کی دوکا نیں یارو
آ ؤ ہم منفی خیلات کا جنگل کا ٹیں
آ ؤ ہم گر دشِ حالات کا جنگل کا ٹیں
ٲ ؤ مل جل کے بری بات کا جنگل کاٹیں
صبح کی فکر کر یں ، رات کا جنگل کا ٹیں
ملک کے ، قوم کے ، ملت کے وفادار ہیں سب
امن و انصاف و عدالت کے طرف دار ہیں سب
نہ تو غدار ہیں اور نہ ہی خطاکار ہیں سب
صرف اور صرف محبت کے طلبگار ہیں سب