دیکھی جو مدینے میں فضا اور طرح کی
چمکی ہے مقدر میں ضیا اور طرح کی
مانگی جو کبھی شہر مقدس کی کسک میں
ہونٹوں پہ وہ چمکی ہے دعا اور طرح کی
سوچی جو خیالوں میں کبھی نور کی برسات
برسی وہ نگاہوں میں گھٹا اور طرح کی
بس دین کی دولت کی طلب گار ہوں ہر دم
ہو مجھ پہ بھی اب جود و سخا اور طرح کی
وشمہ مجھے طیبہ کی فضاؤں سے ہے مطلب
ہے خاک مدینہ میں شفا اور طرح کی