دشتِ طیبہ ہے ہمیں باغِ ارم کی صورت
یاخدا! اب تو دکھا دونوں حرم کی صورت
حالِ دل کس کو سناوں آپ کے ہوتے ہوئے
آپ ہی ہم کو دکھائیںگے کرم کی صورت
جس کو ملتا ہے جو ملتا ہے آپ ہی کا صدقہ ہے
آپ نہ چاہیں تو نظر آے نہ غم کی صورت
آپ چاہیں تو ہو شاخِ شجر پل میں شہا
بے گماں تیز تریں تیغِ دودم کی صورت
دور ہے ہم سے شہِ کون و مکاں کے صدقے
درد و غم رنج و الم ظلم و ستم کی صورت
درِ اقدس پہ جبیٖں خم ہو مری ، میرے خدا
جس گھڑی سامنے ہو مُلکِ عدم کی صورت
از پیَ نوریؔ ، مُشاہدؔ کی دعا ہے مولا
’’اُن کے کوچے میں رہوں نقشِ قدم کی صورت‘‘
٭