گو مدینے کی طرف میں تہی داماں نکلا
نکہت عشق نبی کا اثاثہ تو فراواں نکلا
چند نعتوں کے قصیدے اور کچھ حمد کے پھول
اپنے خالق کی رضا کا یہی ساماں نکلا
زندگی بیت گئی دل کی خلش کم نہ ہوئی
سارے آلام کا طیبا ہی میں درماں نکلا
تھم گئی باد سموم جھوم اٹھے سرووسمن
مشعل عشق نبی تھامے میں خراماں نکلا
دل کی بربادی کو آبادی ملی طیبا میں
راحت دل کا خزینہ وہاں بے پایاں نکلا