نہیں چاہا تھا یہ کیا ہو گیا ہے
اسے مجھ پر بھروسہ ہو گیا ہے
یہ اک دوجے کا دکھ بھی بانٹتے نئیں
میرے لوگوں کو یہ کیا ہو گیا ہے
بجھا دو طاق میں جلتے دیوں کو
ادھر دیکھو اجالا ہو گیا ہے
میسر ہے سبھی کو تیری قربت
تو کیا تو اتنا سستا ہو گیا ہے
برا کہتی تھی جس کو ساری دنیا
کہا تم نے تو اچھا ہو گیا ہے
اٹھی جو آنکھ منزل سامنے تھی
دھرا پاؤں تو رستہ ہو گیا ہے
فلک کو چھو کے لوٹ آئیں دعائیں
یہ میرے ساتھ دھوکا ہو گیا ہے
ادھر نکلا وہ مشکیزہ اٹھا کر
ادھر ہر شخص پیاسا ہو گیا ہے
ترے بن بھی گزارا زندگی کو
ستم یہ ہے گزارا ہو گیا ہے
مجھے اس کی خبر کیسے ہو آربؔ
ملے جو ایک عرصہ ہو گیا ہے