نہ جانے روز ہی کتنے ورق رنگین کرتی ہوں
مگر اک جرم ہے جو میں بڑا سنگین کرتی ہوں
کئ ٹکڑوںمیںکاغذ پھاڑ کےہربار ہی خودسے
نہیںلکھنا ہے اب دل کو یہی تلقین کرتی ہوں
اندھیری رات،طوفانی ہوائیں،ڈولتی کشتی
قلم کے ساتھ یہ سارا سفر شوقین کرتی ہوں
یہ گھلتی چاشنی جھوٹا نہ کردے اسلیئے لکھ کے
بھگو کے آنسوؤں سے لفظ ہر نمکین کرتی ہوں
میرا اظہار ہی ہے جرم میرا سب کی نظروں میں
نہ جانے کس لیئے جذبوں کی یوں تسکین کرتی ہوں