تھمایا تو نے جو ڈبّہ تھا اُسمیں جُوس نہ دیکھا
بہت دیکھے مگر تُجھ سے بڑا کنجُوس نہ دیکھا
میری زلفوں کو بیگم جَھاڑیوں کا جُھنڈ کہتی ہے
اور اپنے باپ کے سر پر اُگا وہ پُھوس نہ دیکھا
جو مُوڈ اچھا ہو تو بیگم کی خوشیاں میرے دم سے ہیں
وگرنہ اُس نے میرے پائے کا منہُوس نہ دیکھا
میں دنیا بھر میں گھوما، ہر جگہ، ہر شے کو دیکھ آیا
مگر افسوس میں نے آج تک یہ رُوس نہ دیکھا
کوئی نمرود کو کوسَے، کوئی فرعون پر برسے
مگر ہم نے بھی ظالم تجھ سا “پیلا طوس “نہ دیکھا
اُڑا پھرتا تھا کل تک تو بگولے کی طرح اشہر
نکاح کے بعد ہم نے تجھ سا پھر مبحوس نہ دیکھا