نہ کوئی آزمائش ہو تو کامل ہو نہیں سکتا
حقیقت میں جو ہو مومن تو بزدل ہو نہیں سکتا
کوئی طاقت جھکا سکتی نہیں پختہ یقیں گر ہو
کہ ہو آتش کبھی گلزار مشکل ہو نہیں سکتا
کسی کے دل کو نہ ہی ٹھیس پہنچے یہ ضروری ہے
کسی کا توڑ کر دل کوئی خوشدل ہو نہیں سکتا
کوئی مجبور ہو تو اس کو مہلت بھی کبھی دے دیں
جسے خوفِ خدا ہو وہ تو سنگدل ہو نہیں سکتا
صداقت پر ہی قائم ہوں یہی ہو مدّعا اپنا
کبھی تو سانچ کو ہو آنچ بالکل ہو نہیں سکتا
کوئی شب ایسی بھی گزری ہوئی نہ سحر بھی جس کی
یہ طولِ غم کبھی دائم ہو اے دل ہو نہیں سکتا
عمل ہو زندگی میں اثر کی کوشش یہی تو ہے
گلہ شکوہ سے ہی کچھ بھی تو حاصل ہو نہیں سکتا