زباں نہ کھول اے دل
کسی سے کچھ نہ بول
یہ حسین جگمگاہٹیں
یہ جھومتی زمیں
سچ کتنا‘ کتنا جھوٹ
رکھ سبھی کی لاج
زباں نہ کھول‘ کچھ نہ بول
سزا کا حال سنا‘ نا جزا کی بات کر
خفا بھی نہ ہو‘ انہیں پتہ بھی چلے
اس احتیاط سے مدعا بیان کر
ہر دور کا خدا نیا مذہب لایا
ملا ہو تجھے‘ تو خدا کی بات کر
زباں نہ کھول اے دل
کسی سے کچھ نہ بول
گلشن نہ اجڑے گا اب کوئی
اب وطن آزاد ہے؟
روٹی‘ کپڑا اور مکان
ہر اہل وطن کو دستیاب ہے؟
کھیت سونا اگائیں
وادیاں موتی اگلیں
اقبال کا خواب‘ جناح کی زمیں - آزاد ہے؟
زباں نہ کھول اے دل
کسی سے کچھ نہ بول
میری شکایت بھی بجا
تیرا شکوہ بھی درست
تجھ کو اظہار خیالات کا حق حاصل ہے
کون کہتا ہے تنقید نہ کر شب و روز کے وعدوں پہ
تردید نہ کر رہبروں کے غلط دعووں پہ
میرا رنج کچھ بھی سہی
تیرا غم کچھ بھی سہی
یہ وطن کسی لشکر کی جاگیر تو نہیں؟
زباں نہ کھول اے دل
کسی سے کچھ نہ بول
آ کہ غور کریں کچھ سوالوں پہ
دکھائے تھے جو حسین خواب کیا ہوئے؟
خوشحالی جمہور کے اسباب کیا ہوئے؟
تبدیلی آئی تو ملک میں افلاس کیوں بڑھا؟
کیا مول لگ رہا ہے جمہور کے خون کا؟
وہ دعوے‘ وہ وعدے‘ وہ جھوٹی تسلیاں
زباں نہ کھول اے دل
کسی سے کچھ نہ بول
امن کے سفیر‘ انسان دوست‘ جمہوریت نواز ہو تم
اے رہبران قوم و ملت گنہگار ہو تم