Add Poetry

وارستہ اس سے ہیں کہ‘ محبت ہی کیوں نہ ہو

Poet: Mirza Ghalib By: TARIQ BALOCH, HUB CHOWKI
Warastah Is Se Hain Ke Mohabbat Hi Kyun Na Ho

 وارستہ اس سے ہیں کہ‘ محبت ہی کیوں نہ ہو
کیجئے ہمارے ساتھ‘ عداوت ہی کیوں نہ ہو

چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے رنگ اختلاط کا
ہے دل پہ بار‘ نقشِ محبت ہی کیوں نہ ہو

ہے مجھ کو تجھ سے تذکرۂ غیر کا گلا
ہر چند بر سبیلِ شکایت ہی کیوں نہ ہو

پیدا ہوئی ہے‘ کہتے ہیں‘ ہر درد کی دوا
یوں ہو‘ تو چارۂ غمِ الفت ہی کیوں نہ ہو

ڈالا نہ بیکسی نے کسی سے معاملہ
اپنے سے کھنیچتا ہوں‘ خجالت ہی کیوں نہ ہو

ہے آدمی‘ بجائے خود‘ اک محشرِ خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں‘ خلوت ہی کیوں نہ ہو

ہنگامۂ زبونیِ ہمت ہے‘ انفعال
حاصل نہ کیجے دہر سے‘ عبرت ہی کیوں نہ ہو

وارستگی بہانۂ بیگانگی نہیں
اپنے سے کر‘ نہ غیر سے‘ وحشت ہی کیوں نہ ہو

مٹتا ہے فوتِ فرصتِ ہستی کا غم کوئی
عمرِ عزیز صرف عبادت ہی کیوں نہ ہو

اس فتنہ خو کے در سے اب اٹھتے نہیں‘ اسد!
اس میں ہمارے سر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو

Rate it:
Views: 930
07 Sep, 2011
Related Tags on Mirza Ghalib Poetry
Load More Tags
More Mirza Ghalib Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets