واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو
Poet: مرزا غالب By: Faizan, Karachi
واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو
صد رہ آہنگ زمیں بوس قدم ہے ہم کو
دل کو میں اور مجھے دل محو وفا رکھتا ہے
کس قدر ذوق گرفتاری ہم ہے ہم کو
ضعف سے نقش پئے مور ہے طوق گردن
ترے کوچے سے کہاں طاقت رم ہے ہم کو
جان کر کیجے تغافل کہ کچھ امید بھی ہو
یہ نگاہ غلط انداز تو سم ہے ہم کو
رشک ہم طرحی و درد اثر بانگ حزیں
نالۂ مرغ سحر تیغ دو دم ہے ہم کو
سر اڑانے کے جو وعدے کو مکرر چاہا
ہنس کے بولے کہ ترے سر کی قسم ہے ہم کو
دل کے خوں کرنے کی کیا وجہ ولیکن ناچار
پاس بے رونقی دیدہ اہم ہے ہم کو
تم وہ نازک کہ خموشی کو فغاں کہتے ہو
ہم وہ عاجز کہ تغافل بھی ستم ہے ہم کو
لکھنؤ آنے کا باعث نہیں کھلتا یعنی
ہوس سیر و تماشا سو وہ کم ہے ہم کو
مقطع سلسلۂ شوق نہیں ہے یہ شہر
عزم سیر نجف و طوف حرم ہے ہم کو
لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع غالبؔ
جادۂ رہ کشش کاف کرم ہے ہم کو
ابر روتا ہے کہ بزم طرب آمادہ کرو
برق ہنستی ہے کہ فرصت کوئی دم ہے ہم کو
طاقت رنج سفر بھی نہیں پاتے اتنی
ہجر یاراں وطن کا بھی الم ہے ہم کو
لائی ہے معتمد الدولہ بہادر کی امید
جادۂ رہ کشش کاف کرم ہے ہم کو






