وحشتیں ہیں چار سو رقصاں ترے جانے کے بعد
سُونی سُونی ہیں بھری گلیاں ترے جانے کے بعد
کیا بتاؤں جاں کو میری کیسے کیسے روگ ہیں
کس قدر ہے زندگی ویراں ترے جانے کے بعد
چاندنی پھیکی پڑی ہے چاند بھی ہے دم بخود
تھم گئی ہے گردشِ دوراں ترے جانے کے بعد
ہم نے مانا دن غمِ دوراں میں کٹ ہی جائے گا
کس طرح بیتے شبِ ہجراں ترے جانے کے بعد
تھا یقیں مجھ کو تمھارے لوٹ آنے کا مگر
پھر بھی شبنم تھی سرِ مژگاں ترے جانے کے بعد
اس زمانے کے بھنور میں بہہ گیا بے دست و پا
رہ گیا سعدی تہی داماں ترے جانے کے بعد