وطن والوں کو کیا خبر
پردیسیوں پر کیا گزرتی ہے
ہم پردیسیوں کا تو
نہ دن گزرتا ہے نہ رات گزارتی ہے
یاد کرنا تو مامول ہوتا ہے
ورنہ زندگی ہماری کہاں گزارتی ہے
جو گھر کو لوٹ جاتے ہیں
خوش نصیبی ان کے قدم چومتی ہے
ہم گھر کو ابھی جا نہیں سکتے
ہمارے دل پہ بس قیامت گزارتی ہے
یوں تو پردیس میں آتے ہیں کئی روز ثناور
مگر یہ عیدیں ہماری نجانے کہاں گزارتی ہیں