وطن کی سر زمیں سے عشق و الفت ہم بھی رکھتے ہیں
کھٹکتی جو رہے دل میں وہ حسرت ہم بھی رکھتے ہیں
ضرورت ہو تو مر مٹنے کی ہمت ہم بھی رکھتے ہیں
یہ جرأت یہ شجاعت یہ بسالت ہم بھی رکھتے ہیں
زمانے کو ہلا دینے کے دعوے باندھنے والو
زمانے کو ہلا دینے کی طاقت ہم بھی رکھتے ہیں
بلا سے ہو اگر سارا جہاں ان کی حمایت پر
خدائے ہر دو عالم کی حمایت ہم بھی رکھتے ہیں
بہار گلشن امید بھی سیراب ہو جائے
کرم کی آرزو اے ابر رحمت ہم بھی رکھتے ہیں
گلہ نا مہربانی کا تو سب سے سن لیا تم نے
تمہاری مہربانی کی شکایت ہم بھی رکھتے ہیں
بھلائی یہ کہ آزادی سے الفت تم بھی رکھتے ہو
برائی یہ کہ آزادی سے الفت ہم بھی رکھتے ہیں
ہمارا نام بھی شاید گنہ گاروں میں شامل ہو
جناب جوشؔ سے صاحب سلامت ہم بھی رکھتے ہیں