چشمہ فیض سے تشنہ لوٹ آتے ہیں
میری دعاؤں کے سب اثر جاتے ہیں
تارک دنیا ہو جائے جب دل
رستے خواہشوں سے جدا ہو جاتے ہیں
مقصد ہو جب اک مرکز سے شناسائی
قدم خودبخود سوئے منزل جاتے ہیں
جنہوں نے چھوڑی دنیا کتنے جتن کر کے
انہی کے در سے دنیا مانگنے جاتے ہیں
اولیا اکرام احکام خداوندی کا نمونہ ہیں
ہدایت ملتی ہے انہیں جو ہدایت پاتے ہیں
شب تنہائی میں حاضر ہو کر حضور میں
شدت شوق سے آنسو نکل آتے ہیں
رکوع اور کبھی سجدے میں سحر ہو جاتی ہے
ستارے بھی دیکھ دیکھ کر تھک جاتے ہیں
گلہ ہوتا ہے اکثر فرشتوں کو بھی
گنہگار عشق میں کہیں آگے نکل جاتے ہیں
خدا رہتا ہے اس کے دل میں آکر
اسے مہمان نوازی کے کونسے سلیقے آتے ہیں