وہی آنگن وہی کھڑکی وہی در یاد آتا ہے
Poet: آلوک شریواستو By: مصدق رفیق, Karachiوہی آنگن وہی کھڑکی وہی در یاد آتا ہے
اکیلا جب بھی ہوتا ہوں مجھے گھر یاد آتا ہے
مری بے ساختہ ہچکی مجھے کھل کر بتاتی ہے
ترے اپنوں کو گاؤں میں تو اکثر یاد آتا ہے
جو اپنے پاس ہوں ان کی کوئی قیمت نہیں ہوتی
ہمارے بھائی کو ہی لو بچھڑ کر یاد آتا ہے
سپھلتا کے سفر میں تو کہاں فرصت کہ کچھ سوچیں
مگر جب چوٹ لگتی ہے مقدر یاد آتا ہے
مئی اور جون کی گرمی بدن سے جب ٹپکتی ہے
نومبر یاد آتا ہے دسمبر یاد آتا ہے
More December Poetry






