وہی آنگن وہی کھڑکی وہی در یاد آتا ہے
اکیلا جب بھی ہوتا ہوں مجھے گھر یاد آتا ہے
مری بے ساختہ ہچکی مجھے کھل کر بتاتی ہے
ترے اپنوں کو گاؤں میں تو اکثر یاد آتا ہے
جو اپنے پاس ہوں ان کی کوئی قیمت نہیں ہوتی
ہمارے بھائی کو ہی لو بچھڑ کر یاد آتا ہے
سپھلتا کے سفر میں تو کہاں فرصت کہ کچھ سوچیں
مگر جب چوٹ لگتی ہے مقدر یاد آتا ہے
مئی اور جون کی گرمی بدن سے جب ٹپکتی ہے
نومبر یاد آتا ہے دسمبر یاد آتا ہے