اِک سفر پر نکلی میں
تو بلکل اکیلی تھی
ہمدرد بہت سے تھے
ہمسفر نہ تھا کوئی
جب ہوش سنبھالا تو
میں ہوش گنوا بیٹھی
اس سفر میں جو دیکھی
وہ الگ سی دنیا تھی
یہاں بھیڑ بہت تھی پر
کچھ بھی تو نہ میرا تھا
اس بھیڑ میں جو دیکھا تو
اک انجان سا میلا تھا
یہاں سورج نکلتا تھا
پھر بھی نہ سویررا تھا
یہاں پھول تو کھلتے تھے
اداسیوں کا بھی ڈیرا تھا
یہاں چاند تو چمکتا تھا
اور ہر سُو اندھیرا تھا
یہاں تارے بھی نکلتے تھے
پھر بھی چاند اکیلا تھا
اس سفر میں کچھ آگے
میں چلی تو تھی لیکن
اک آواز مجھے آئی
الفاظ الگ سے تھے
آواز بھلی سی تھی
اس آواز میں کچھ تو تھا
میں یوں ہی نہ ٹھٹکی تھی
جب غور کیا میں نے
الفاظ کچھ ایسے تھے
کیا کہتی ہو تم نادان
اس بھری سی دنیا میں
کچھ بھی نہیں تیرا
تو بات میری مانو
جس رب نے بنایا ہے
اس ذات کو پہچانو
وہ رب تو ایسا ہے کہ
اک قدم بھی بڑھاؤ
وہ بھاگ کے آتا ہے
ہے عجب یہ منظر کہ
پھر بھی تو اکیلی ہے
حیران تو میں بھی تھی
کہ کیوں نہ واقف تھی
اب تک جو گزاری ہے
وہ زندگی کیا ہی تھی
اب دل کو سکوں آیا
اور آنکھ لگی ایسے کہ
جب آنکھ کھلی میری
تو سامنے منزل تھی
آج سورج نکلا تھا
اور ہر سُو سویرا تھا
آج پھول کھلے تھے جو
اک الگ ہی رنگ کے تھے
ان پھولوں کی خوشبو کا
اک سحر سا پھیلا تھا
آج چاند جو چمکا تو
ہر طرف اجالا تھا
تاروں کی چادر جو
آسمان نے تانی تھی
اس چادر تلے پھیلا
اک خوب سکوں سا تھا
اس سفر میں مشکل سے
ان سب تک میں پہنچی تھی
آج سفر ہوا پورا
میں رب تک پہنچی تھی
پھر سےوہ آواز سنی میں نے
کہ وہ رب تو ایسا ہے
اک قدم جو بڑھاؤ
تو وہ بھاگ کے آتا ہے
یہ آواز جو بھلی سی تھی
یہ آواز بھی میری تھی
اور اس دنیا میں جو بھی تھا
سب کچھ تو وہ میرا تھا
کیونکہ
جو رب ہے نہ وہی سب ہے