وہی ہے راستہ چلے تھے جہاں مل کے
آ رہے ہیں لوگ وہاں اب صورتیں بدل کے
ملتا نہیں کوئی جانا پہچانا راستے میں
گزر جاتے ہیں سب اپنا چہرہ بدل کے
دل نے کہا آواز دے کر بلا لوں انہیں
شاید وہ پاس آ جائیں ارادہ بدل کے
ملتے ہیں جب بھی وہ سرراہ اچانک
دیکھتے ہیں وہ ہمیں پہلو بدل بدل کے
کوئی چیخ ہو یا لزت بھرا گیت دھن پر
کر رہے ہیں انہیں متوجہ قافیے بدل کے