رقصِ ماتم ہے اور درد کی شہنائی ہے
شبِ فرقت میری دہلیز پر اُتر آئی ہے
غمِ ہجراں نے لگایا ہے مجھکو گَلے
خلوتِ زیست زیارت کے لیے آئی ہے
گِریہ و زاری کا موسم ہے پلکوں پر
وقت سے پہلے قیامت چلی آئی ہے
دربَدر پھ۔رتے ہوئے آہستہ قدموں سے
اِک اُداسی میری تلاش میں آئی ہے
اب عکسِ ذات مکمل نہیں ہو سکتا
شیشہِ دل پر جدائ کی دَرار آئی ہے
حُسینؔ ! حسابِ محبت چُکانے کیلئے
وہ آخری بار مجھ سے ملنے آئی ہے