وہ آ کے خواب میں تسکینِ اضطراب تو دے
ولے مجھے تپشِ دل ، مجالِ خواب تو دے
کرے ہے قتل ، لگاوٹ میں تیرا رو دینا
تری طرح کوئی تیغِ نگہ کو آب تو دے
دِکھا کے جنبشِ لب ہی ، تمام کر ہم کو
نہ دے جو بوسہ ، تو منہ سے کہیں جواب تو دے
پلا دے اوک سے ساقی ، جو ہم سے نفرت ہے
پیالہ گر نہیں دیتا ، نہ دے شراب تو دے
یہ کون کہوے ہے آباد کر ہمیں، لیکن
کبھی زمانہ مرادِ دلِ خراب تو دے
اسد ! خوشی سے مرے ہاتھ پاؤں پُھول گئے
کہا جو اُس نے ، ذرا میرے پاؤں داب تو دے“