وہ جو اداؤں سے بہلائے گئے
بعد میں وہی دیوانے کہلوائے گئے
رقیبوں کی چالیں کیا معنی،تیرا اشارا تھا
جو ہم تیری بزم سے اٹھوائے گئے
تیرے شہر کے لوگ بھی تیرے ساتھ تھے
جب بھی پوچھا تیرا پتا،بہکائے گئے
کھل کے رونا چاہتے تھے پر مجبور تھے
پندار محبت کے لئے مسکرائے گئے
اگر تغافل ہی برتنا تھا تو کیوں پھر
میری آنکھوں م یں خواب بسائے گئے
تیری رسوائی تیرا چرچا مقصود نہ تھا
میرے لفظوں کو غلط معنی پہنائے گئے