کھلا جس کے پر شفقت گہوار میں بچپن میرا
دیں و دنیا کے ہر الملم سے بھرا جس نے دامن میرا
جس بابل کے کندھے لگ روئی میں جدائی کی گھڑی
اسی کی یاد میں اب ہر لمحہ ہے مگن میرا
لفظوں کا معمار مگر کم گو تھا وہ
کوئی پوچھے جو معیار تو ارسطو تھا
طبیعت میں تازگی شگتگی ٹھہراؤ تھا
چٹانوں کا حوصلہ سمندروں کا پرتو تھا وہ
جو خود میں رچی بسی تھی اسی خو سے اس نے
جو اپنی پہچان تھی اسی رنگ و بو سے اس نے
اک بگھیا میں بے لاگ بہاروں کی طرہ
ہم چار پودوں کو سینچا اپنے لہو سے اس نے
مہ و انجم کی طرہ ہستی اس کی تابندہ ہے
اوجھل ہے آنکھ سے مگر یاد اسکی پائندہ ہے
کیا کیا نہ لکھوں میں اب یاد میں اسکی
کہ کم سخن ہوں قلم میرا شرمندہ ہے
وہ جو اک شخص تھا بے لاگ بہاروں جیسا
پاپا کی یاد میں ١٩٨٤