وہ جو کہتا ہے کہ اُس جیسا کسی کا جمال نہیں ہے
دے سکے کوئی ، دنیا میں تو ایسی مثال نہیں ہے
مانا کہ وہ حسیں و جمیل ہے سب سے بڑھ کر
قدرت کا ہے یہ ، اُس کا تو کمال نہیں ہے
اک بار جو دیکھے آُسے ، تو دیکھتا جائے
نظریں ہٹائے ، کسی میں بھی یہ مجال نہیں ہے
اُس کے اشارے پر جان دیتے ہیں لوگ کیوں
چہرے پہ اُس کے ایسا تو جلال نہیں ہے
کہتے ہیں چلے تو صبا ساتھ رقص کرتی ہے
اُس کے جیسی ادا ، کسی کی ایسی چال نہیں ہے
لوگ مجھے نہ جانے کیوں کہتے ہیں مجنوں مجنوں
ایسا میرا رُوپ ، ایسا بھی میرا حال نہیں ہے
اتنا نہ اتراؤ اپنے حُسن پہ اے صنم
تُو کیا سمجھتا ہے کہ اس پہ زوال نہیں ہے
مجھے اپنا کہہ کر چھوڑ دیا اس بے وفا نے
اس پر اُسے ذرا بھی ملال نہیں ہے
بن اُس کے جینے کا تصور کر لو کاشف
کیا زندگی میں فراق اور وصال نہیں ہے