وہ شخص کبھی جس نے مرا گھر نہیں دیکھا
اس شخص کو میں نے کبھی گھر پر نہیں دیکھا
کیا دیکھوگے حال دل برباد کہ تم نے
کرفیو میں مرے شہر کا منظر نہیں دیکھا
جاں دینے کو پہنچے تھے سبھی تیری گلی میں
بھاگے تو کسی نے بھی پلٹ کر نہیں دیکھا
داڑھی ترے چہرے پہ نہیں ہے تو عجب کیا
یاروں نے ترے پیٹ کے اندر نہیں دیکھا
تفریح یہ ہوتی ہے کہ ہم سیر کی خاطر
ساحل پہ گئے اور سمندر نہیں دیکھا
فٹ پاتھ پہ بھی اب نظر آتے ہیں کمشنر
کیا تم نے کوئی اوتھ کمشنر نہیں دیکھا
افسوس کہ اک شخص کو دل دینے سے پہلے
مٹکے کی طرح ٹھونک بجا کر نہیں دیکھا