غافل کو ہے فطرت کی مکافات سے انکار
نادان تجھے دین کے ثمرات سے انکار
تو اپنی نگاہوں کے سہارے کا ہے محتاج
یہ کیا کہ تجھے غیب کے اثرات سے انکار
مانا تری پرواز ہے افلا ک کے نزدیک
ہے تجھ کو ابھی نوری مقامات سے انکار
واقف ہے ترے حال سے اک ذات مہرباں
اغماض طبعت کو تحیات سے انکار
وہ عشق حقیقی کو نبھائے گا بھلا کیا
ہو جس کو مچلتے ہوئے جزبات سے انکار
مکتب میں تصوف کے دریچوں کو ذرا کھول
ملا تجھے صوفی کی تعلیمات سے انکار
یہ سوچ کے آیا ہوں تری بزم سخن میں
شاید کہ تجھے بھی ہو خرافات سے انکار
دوں نام بھلا کیسے خرد کا اسے زاہد
جس مادہ پرستی کو کرشمات سے انکار