وہ مفلسوں کا مال اُڑا کر چلے گئے
سارے جہاں کی ذلت اٹھا کر چلے گئے
اب ان کی سات پیڑھیاں کھائیں گی بیٹھ کر
جتنے اثاثے اپنے بنا کر چلے گئے
پہلے ہی سود بھرنے کو دھیلا نہیں تھا ایک
اوپر سے اور قرضے چڑھا کر چلے گئے
جیسے ہی اِقتِدار گیا ان کے ہاتھ سے
بیماریوں کے حیلے بنا کر چلے گئے
انصاف نام کی جہاں کوئی چیز ہی نہیں
اندھی نگر وہ ایسی بنا کر چلے گئے
پتلے بنا کر ان کے جلایا کرے گی قوم
جو تخت پہ لٹیرے بٹھا کر چلے گئے
فرعون کے وہ انت سے شاید تھے بے خبر
فرعونیت جو اپنی دکھا کر چلے گئے