وہ ووٹ لےکر پھر مجھے بدھو بنا گیا
کرسی پہ بیٹھاخودمیں قدموں میں آگیا
شاہ بن گیا مری ہی بدولت ایک شخص
اونچے دکھاکے خواب وہ مفلس بنا گیا
ایوانوں کو کیا ڈھاتا مہنگائی کایہ جن
کچے مکاں غریب کے ہی سب گرا گیا
ریلی کےنام پہ کبھی دھرنے کے نام پہ
کچھ اور نہ دیا تو باہم لڑا گیا
پانی سے آگ سے کبھی ریفل کےوارسے
جو دے نہ پائے زندگی مرنا سکھا گیا
جنگ اقتدار کی مطلب کو کھیل لی
تبدیلی ء جمہور کا نعرہ لگا گیا
پوچھیں نہ مل کے کیسے ٹولی نےمختصر
چند انگلیوں سے تک دھنا دھن نچا گیا