وہ کافر آشنا نا آشنا یوں بھی ہے اور یوں بھی
ہماری ابتدا تا انتہا یوں بھی ہے اور یوں بھی
تعجب کیا اگر رسم وفا یوں بھی ہے اور یوں بھی
کہ حسن و عشق کا ہر مسئلہ یوں بھی ہے اور یوں بھی
کہیں ذرہ کہیں صحرا کہیں قطرہ کہیں دریا
محبت اور اس کا سلسلہ یوں بھی ہے اور یوں بھی
وہ مجھ سے پوچھتے ہیں ایک مقصد میری ہستی کا
بتاؤں کیا کہ میرا مدعا یوں بھی ہے اور یوں بھی
ہم ان سے کیا کہیں وہ جانیں ان کی مصلحت جانے
ہمارا حال دل تو برملا یوں بھی ہے اور یوں بھی
نہ پا لینا ترا آساں نہ کھو دینا ترا ممکن
مصیبت میں یہ جان مبتلا یوں بھی ہے اور یوں بھی
لگا دے آگ او برق تجلی دیکھتی کیا ہے
نگاہ شوق ظالم نارسا یوں بھی ہے اور یوں بھی
الٰہی کس طرح عقل و جنوں کو ایک جا کر لوں
کہ منشائے نگاہ عشوہ زا یوں بھی ہے اور یوں بھی
مجازیؔ سے جگرؔ کہہ دو ارے او عقل کے دشمن
مقر ہو یا کوئی منکر خدا یوں بھی ہے اور یوں بھی