تجھے ڈھونڈتے میں
کہا سے کہا تک گیا
گلیوں سے نکلا
تو محلوں تک گیا
آندھوں میں نکلا تو پھر
طوفانوں تک گیا
بہاریں آئی ، خزاں آئی
میں ہر موسم کے انجام تک گیا
المہ سے پڑھنے لگا تو
پھر میں والناس تک گیا
ہاتھ ُاٹھائے تو پھر میں
سجدوں کے آخری مقام تک گیا
میں پھولوں کی خشبوں سے
لے کر جگنوں کی رات تک گیا
میں پانی پینے لگا تو پھر
کربلا کی پیاس تک گیا
پہلی سانس سے لے کر
میں اپنی آخری سانس تک گیا
ُخدا تو ہر جگہ پے تھا پھر میں کیوں
ُاسے ڈھونڈتا زمیں سے آسمان تک گیا