جگر کو چھلنی کرے ، روح سوگوار کرے
وطن کا دُکھ مِری آنکھوں کو اشکبار کرے
کوئی تو ہو جو عداوت کے دُکھ سمجھ پائے
دِلوں کو وصفِ محبت سے ہمکنار کرے
کھلیں وہ گل کہ مہکنے لگے چمن مالک
ہوا کچھ ایسی چلے دُور یہ غُبار کرے
ہر ایک شخص کے ہاتھوں میں ہوں گلاب کے پھول
زباں پہ ذکرِ وفا ہو سبھی سے پیار کرے
مِلے وہ قوم کو رہبر کہ جو کرے خدمت
کبھی پڑے جو ضرورت تو جاں نثار کرے
سُہیل ہم سے تقاضہ یہ سرزمین کا ہے
کبھی نہ راہ ِستم کوئی اختیار کرے