چراغ آندھیوں میں بھی جلا کے رکھا ہے
دشمن کے ارادوں کو ہمیشہ بجھا کے رکھا ہے
کون دے سکتا ہےبزدلی کا طعنہ ہمیں
تاریخ میں اپنے کرناموں کو بھراکے رکھا ہے
ڈر موت کا ہم کو ہو سکتا ہے بھلا کیونکر
شہادت کو تو ہم نےاپنا مقصد بنا کے رکھا ہے
بحروبر پہ تو عرصہ ہوا قابض ہیں ہم
پاؤں ہواؤں پہ بھی اب ہم نے دبا کے رکھا ہے
ہر بار وہ آیاہے اس دھرتی کاقابض بن کے
اور ہربار ہی ہم نے اسے ناکوں چنے چبوا کے رکھا ہے
کوئ روندھ سکتا ہے بھلا پاؤں میں اِس کی حُرمت کو
اس پاک مٹی کو تو ہم نے 'دانی' آنکھوں میں اپنی سجا کے رکھا ہے