پرائی آگ پہ روٹی نہیں بناؤں گا
Poet: Tahzeeb Hafi By: sultan, khi
پرائی آگ پہ روٹی نہیں بناؤں گا
 میں بھیگ جاؤں گا چھتری نہیں بناؤں گا
 
 اگر خدا نے بنانے کا اختیار دیا
 علم بناؤں گا برچھی نہیں بناؤں گا
 
 فریب دے کے ترا جسم جیت لوں لیکن
 میں پیڑ کاٹ کے کشتی نہیں بناؤں گا
 
 گلی سے کوئی بھی گزرے تو چونک اٹھتا ہوں
 نئے مکان میں کھڑکی نہیں بناؤں گا
 
 میں دشمنوں سے اگر جنگ جیت بھی جاؤں
 تو ان کی عورتیں قیدی نہیں بناؤں گا
 
 تمہیں پتا تو چلے بے زبان چیز کا دکھ
 میں اب چراغ کی لو ہی نہیں بناؤں گا
 
 میں ایک فلم بناؤں گا اپنے ثروتؔ پر
 اور اس میں ریل کی پٹری نہیں بناؤں گا
More Tahzeeb Hafi Poetry
موسموں کے تغیر کو بھانپا نہیں چھتریاں کھول دیں موسموں کے تغیر کو بھانپا نہیں چھتریاں کھول دیں
زخم بھرنے سے پہلے کسی نے مری پٹیاں کھول دیں
ہم مچھیروں سے پوچھو سمندر نہیں ہے یہ عفریت ہے
تم نے کیا سوچ کر ساحلوں سے بندھی کشتیاں کھول دیں
اس نے وعدوں کے پربت سے لٹکے ہوؤں کو سہارا دیا
اس کی آواز پر کوہ پیماؤں نے رسیاں کھول دیں
دشت غربت میں میں اور مرا یار شب زاد باہم ملے
یار کے پاس جو کچھ بھی تھا یار نے گٹھڑیاں کھول دیں
کچھ برس تو تری یاد کی ریل دل سے گزرتی رہی
اور پھر میں نے تھک ہار کے ایک دن پٹریاں کھول دیں
اس نے صحراؤں کی سیر کرتے ہوئے اک شجر کے تلے
اپنی آنکھوں سے عینک اتاری کہ دو ہرنیاں کھول دیں
آج ہم کر چکے عہد ترک سخن پر رقم دستخط
آج ہم نے نئے شاعروں کے لیے بھرتیاں کھول دیں
زخم بھرنے سے پہلے کسی نے مری پٹیاں کھول دیں
ہم مچھیروں سے پوچھو سمندر نہیں ہے یہ عفریت ہے
تم نے کیا سوچ کر ساحلوں سے بندھی کشتیاں کھول دیں
اس نے وعدوں کے پربت سے لٹکے ہوؤں کو سہارا دیا
اس کی آواز پر کوہ پیماؤں نے رسیاں کھول دیں
دشت غربت میں میں اور مرا یار شب زاد باہم ملے
یار کے پاس جو کچھ بھی تھا یار نے گٹھڑیاں کھول دیں
کچھ برس تو تری یاد کی ریل دل سے گزرتی رہی
اور پھر میں نے تھک ہار کے ایک دن پٹریاں کھول دیں
اس نے صحراؤں کی سیر کرتے ہوئے اک شجر کے تلے
اپنی آنکھوں سے عینک اتاری کہ دو ہرنیاں کھول دیں
آج ہم کر چکے عہد ترک سخن پر رقم دستخط
آج ہم نے نئے شاعروں کے لیے بھرتیاں کھول دیں
زبیر









 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 